اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ روابط کی اسٹریٹیجک کونسل کے سیکریٹری سید عباس عراقچی نے دوحا میں" آپریشن طوفان الاقصی کے بعد علاقے کے توازن" کے زیرعنوان الجزیرہ کے سیمینارکے ایک پینل میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی عوام اور استقامتی محاذ کی مکمل حمایت کے اصولی موقف پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ ایران اسرائیلی حکومت کے ساتھ روابط معمول پر لانے کا مخالف ہے ۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم نے اپنی تشویش اور اس موقف سے اپنے ان عرب برادران کو باخبر کردیا ہے جواسرائیل سے روابط برقرار کرچکے ہیں یا اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ ہم صیہونی حکومت کے ساتھ روابط کی برقراری کو فلسطین اور فلسطینی کاز سے خیانت سمجھتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ روابط کی اسٹریٹیجک کونسل کے سیکریٹری نے واضح کیا کہ تہران نام نہاد دو ریاستی راہ حل کا مخالف ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ راہ حل کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگی۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ چاہے نتن یاہو اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں، اسرائیلی حکومت اصولی طور پر دو ریاستی راہ حل قبول نہیں کرسکتی۔
انھوں نے کہا کہ ایران کی راہ حل ایک ملک پر مبنی ہے جس کے نظام کا تعین اس سرزمین کے اصلی ساکنین کی مشارکت سے ایک ریفرنڈم سے کیا جائے چاہے وہ مسلمان ہوں، چاہے یہودی ہوں یا عیسائی ہوں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ اب اسرائيلی حکومت کا بت پاش ہاش ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسائل بدل گئے ہیں اور بہت زیادہ تبدیلی آچکی ہے،اسرائیلی حکومت کو 2006 کی 33 روزہ جںگ سے ابھر کر سامنے والی حزب اللہ کی دفاعی اور انسدادی طاقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔
ایران کے خارجہ روابط کی اسٹریٹیجک کونسل کے سیکریٹری نے صیہونی حکومت کی ایٹمی دھمکیوں، غزہ پر ایٹم بم مار دینے کی دھمکی اور اسی طرح ایٹمی طاقت کے استعمال کے بارے میں صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ کے بعض اراکین کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ایک صیہونی رکن پارلیمان موشے رگرنو نے ایکس پیج پر لکھا ہے کہ اسرائیل کا اریحا دور مار بیلسٹک میزائل ایٹمی وار ہیڈ لے جاسکتا ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ بعض امریکی حکام نے بھی ایسے ہی پیغام بھیجے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکا کے معروف سینیٹر لنڈسی گراہم نے جنگ غزہ کا دوسری عالمی جنگ میں دو جاپانی شہروں پر امریکا کی ایٹمی بمباری سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے جنگ ختم کرنے کے لئے ایٹم بم کے استعمال کا فیصلہ صحیح تھا اور اسرائیل کو جو بھی ضروری ہو کردینا چاہئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ روابط کی اسٹریٹیجک کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ اسرائیل نے ایٹمی اسلحہ رکھنے کا نہ اعتراف کیا ہے اور نہ ہی تردید کی ہے بلکہ اس سلسلے میں ابہام کی اسٹریٹیجی اختیار کی ہے لیکن آپریشن طوفان الاقصی اور غزہ میں عوام کی استقامت کے آٹھ ماہ گزرنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ اب اسرائيل اس ابہام کی اسٹریٹیجی سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جیسا کہ عرب لیگ کے سابق سیکریٹری جنرل عمرو موسی نے کہا ہے، اسرائیلی حکام کے بیانات،ایٹمی اسلحے کے استعمال کے دھمکی نہیں ہیں بلکہ ان سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند کابینہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتی ہے۔
سید عباس عراقچی نے اپنی تقریر میں جس کا الجزیزہ کا مترجم، عربی میں ترجمہ کررہا تھا، خبردارکیا کہ اسرائیلی حکومت کی ایٹمی دھمکی سے علاقے میں سیکورٹی توازن بدل جائے گا اور دوسرے اپنی ایٹمی پوزیشن پر نظر ثانی پر مجبور ہوجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ مشرق وسطی کو ایٹمی اسلحے سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے غاصب صیہونی حکومت کے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنا ضرروی ہے ۔
آپ کا تبصرہ